امّ المدارس دارالعلوم دیوبند نے
تبلیغ وارشاد ، دعوت و اصلاح ، جہد و عمل اورتعلیم و تربیت کے میدان
میں جو باکمال افراد پیدا کیے ہیں،ان میں ایک
روشن نام حضرت مدنی علیہ الرحمہ کے تلمیذ رشید ، بزرگوں
وا کابر کے منظورِ نظر، عوام و خواص میں بے حدمقبول و محترم شخصیت
،جامع مسجدبمبئی کے امام وخطیب بقیة السلف حضرت مولانا سید
شوکت علی نظیر رحمہ اللہ کا ہے جو مورخہ ۲۵/ذی
الحجہ ۱۴۳۶ھ= ۱۰ /اکتوبر ۲۰۱۵
ء کو اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔مولانا ان علماء ربّانین
میں تھے جو علم و فضل ، صلاح و تقوی،اعتدال ونرم روی اوردینی
غیرت وحمیت میں ممتاز مقام کے ساتھ امت کی اصلاح و ترقی
اورمسلمانوں میں دینی روح پھونکنے کے لیے ساری زندگی
مصروف عمل رہے۔
پیدائش
حضرت مولاناسید شوکت علی نظیر
رحمہ اللہ صوبہٴ مہاراشٹر کے خطہٴ کوکن جو ممبئی سے متصل ساحلی
پٹی کے چار اضلاع ضلع تھانہ، رائے گڈھ( قدیم نام قلابہ) رتنا گیری
اور سندھودرگ پر مشتمل ہے کے ضلع رائے گڈھ کی تاریخی بستی
میندری میں ۲۶/شعبان المعظم ۱۳۵۰ھ
= ۶/جنوری ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے۔آپ
سادات سے تعلق رکھتے تھے ، آپ کا سلسلہٴ نسب ۳۳ واسطوں سے حضرت
حسین سے جاملتا ہے۔
تعلیم وتربیت
والدِ محترم کا سایہٴ رحمت کم
عمری میں اٹھ گیا تھا، دادا مرحوم کی سرپرستی میں
ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک گاوٴں کے اسکول میں
حاصل کی ، اس دور افتادہ علاقے میں کوئی دینی مدرسہ
نہ تھا، دین سے عموماً دوری تھی اور ناواقفیت کی
وجہ سے بدعات وخرافات کو اصل دین سمجھا جاتا تھا،پس دینی تعلیم
حاصل کرنے کے لیے آپ کو جامعہ حسینیہ راندیربھیجنے
کافیصلہ کیا گیا، آپ راندیرگجرات کے لیے روانہ
ہوگئے،علم کو حاصل کرنے کی لگن اور تڑپ نے مولانا کومسلسل چار سال وہیں
رہنے اور تعطیلات میں بھی گھر نہ آ نے پرآمادہ کیا۔جامعہ
حسینیہ راندیر کے مہتمم مولانا محمد سعید راندیری جوبڑے جلالی شان کے مہتمم تھے، مولاناسے بے حد محبت فرماتے
تھے، گھر سے آپ کے لیے روٹی اور کھانا چپکے سے لاتے اور کھلاتے ، اس
کے بعد مدرسہ انوار العلوم احمد آباد میں ایک سال رہے ، اس دوران
دوسال کی کتابیں پڑھیں۔
دارا لعلوم دیوبند میں
پھر آپ آگے کی تعلیم کے لیے
رشد وہدایت کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند تشریف
لے گئے ، حضرت مولانا کی خوش نصیبی کہ انھوں نے وہاں ایسے
اساطین ِعلم فضل سے اکتسابِ فیض کیا جو زہد و تقوی ، رسوخ
فی العلم سے لے کردین و ملت کے لیے جہد و عمل اور جاں نثاری
و سرفروشی کی اعلیٰ مثال تھے۔دورہٴ حدیث
میں آپ نے صحیح بخاری شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین
احمد مدنی سے، صحیح مسلم امام المعقول والمنقول حضرت علامہ ابراہیم
بلیاوی سے، سنن ترمذی ، سنن ابو داود اور شمائل ترمذی شیخ
الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی سے ،سنن نسائی،
طحاوی اور موطا امام مالک حضرت مولانا فخر الحسن سے، موطا امام
محمدحضرت مولانا محمد جلیل سے اور ابن ماجہ حضرت مولانا ظہور احمد سے پڑھیں۔آپ ۱۳۷۳ھ=۱۹۵۴ء
میں دارالعلوم دیوبندسے فارغ ہوئے اور دورہٴ حدیث میں
اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
اساتذہ کی شفقت
آپ ایک ذی استعداد اور نیک
و صالح طالب علم تھے اورغیر سنجیدہ حرکات، لہو ولعب اور خرافات و لغویات
سے پاک تھے، علم کی نافعیت اور عمل کی صالحیت حاصل کرنے کی
دھن تھی، اس لیے مشفق اساتذہ کی توجہات آپ پر تھیں، آپ کو
حضرت مدنی قدس سرہ سے بڑی عقیدت و محبت تھی اور حضرت مدنی
کی آپ پر شفقتیں وعنایتیں بے پایاں! آپ حضرت مدنی
کی خدمت میں حاضر ہوتے اور علمی و روحانی استفادہ کرتے،
حضرت مدنی عمرکے اخیر حصے میں خطہٴ کوکن میں رشد و
ہدایت پھیلانے کے لیے تشریف لائے تو معلوم ہواکہ یہاں
سادات کی ایک بستی ’میندری ‘ہے تو حضرت مدنی وہاں تشریف لے گئے،مولانا اس وقت دارالعلوم میں زیرِ
تعلیم تھے، حضرت مدنی نے واپسی پر
فرمایا کہ میں تمہارے گاوٴں گیا تھا۔حضرت مدنی کو یہاں کے چمپا کا پھول بڑ ا پسند آیا تو جب مولانا
گھر آئے تو چمپا کا پھول سرکہ میں ڈال کر لے گئے اور حضرت مدنی کی خدمت میں پیش کیا،جو
حضرت مدنی کی حیات تک تازہ رہا ۔مولانااس
خطہ میں حضرت مدنی کی آمد کے واقعات خوب مزے لے لے کر سناتے، حضرت مدنی کا نام و تذکرہ اوران کے مجاہدانہ واقعات کی داستان مولانا
کی زبان سے سنتے توکچھ اورہی لطف آتا۔حضرت مدنی رحمة اللہ
علیہ اور آپ کے خانوادے سے آپ کابے حدخلوص و محبت پر مبنی تعلق تھا ،
فدائے ملت حضرت مولانا سیداسعدمدنی اور خانوادہ کے دیگر
افراد کا بڑا احترام واکرام فرماتے تھے۔
میدانِ عمل میں
مولانا نے فراغت کے بعد ایک سال تک
گاوٴں میں رہ کر دین کی خدمات انجام دیں اور لوگوں
میں دینی بیداری پیدا کرنے کی کوشش
کرتے رہے ، پھر جامع مسجدبمبئی کے امام و خطیب مولانا غلام محمدخطیب
صاحب کے ایماء پر بنگالی پورہ مسجدبمبئی میں ایک
سال امامت کی خدمت انجام دی۔
تدریس جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل
مولانا کی استعداد و صلاحیت
اعلیٰ درجہ کی تھی، وہیں صلاح و تقوی میں
بھی ممتاز تھے، پس تقدیرِ الٰہی آپ کو تدریس کے لیے
گجرات کے مشہور تعلیمی ادارے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین
ڈابھیل کی علمی فضا میں لے گئی، وہاں مولانا نے تدریس
کے ساتھ ساتھ طلبہ کی دینی واخلاقی تربیت کی
فکریں کیں اور بڑے خلوص و مستعدی کے ساتھ اپنی خدمات
انجام دیں ، مولانا کا طلبہ میں ایک مقام تھا کئی واقعات
شاہد ہیں کہ طلبہ مولانا کا بے حد ادب واحترام کرتے تھے ، ایسا محسوس
ہوتا تھا کہ علم واخلاص کا یہ ستارہ بہت ترقی کرے گا اور درس و تدریس
کی اعلی مسندوں کو زینت بخشے گاکہ اچانک جامع مسجد بمبئی
کے امام و خطیب مولانا غلام محمد خطیب نے مہتمم جامعہ کے نام بار بار
خط لکھا، پھر تار دیا کہ ڈابھیل سے مولانا کو بھیج دیا
جائے، تو مہتمم صاحب نے بادلِ ناخواستہ اجازت دی، آپ نے جامعہ اسلامیہ
ڈابھیل کی تاریخ کے مطابق شوال ۱۳۷۹ھ
سے ذی الحجہ۱۳۸۰ھ تک تدریسی خدمت انجام
دی۔ (تاریخ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل: ۴۳۲
)
اما مت وخطابت جامع مسجد بمبئی
جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے
بعدجامع مسجد بمبئی میں ۷۵/ روپے تنخواہ پر امامت کی
ذمہ داری سنبھالی اور اسی کے ساتھ مدرسہ محمدیہ میں
عربی استاذ کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے
رہے ، یہاں مولانا قاضی اطہر مبارک پوری بھی تدریس
میں آپ کے رفیق تھے۔
مولانا نے تقریباً ۵۲/
سال اس شان ووقار کے ساتھ امامت کی کہ آپ کی ذات مرجع خلائق بن گئی
، لوگوں کے دلوں میں آپ کی جو عظمت و محبت تھی،وہ بس دیکھنے
سے تعلق رکھتی تھی۔ آپ اس منصب پر رہتے ہوئے اپنے کردارو عمل کے
ذریعہ عوام و خواص ہر ایک کے لیے نمونہٴ عمل بنے اور نازک
سے نازک موقع پربھی اشتعال و جذباتیت سے ہٹ کر صالح فکر کے ساتھ امت کی
صحیح راہنمائی فرمائی۔ خطبات موقع و محل اور حالاتِ حاضرہ
کی مناسبت سے تیارکرتے تھے ۔ جب سلمان رشدی کا فتنہ اٹھا
اورامت کی فکری بنیادوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا،تو
آپ نے مسلسل ۵۲ / خطبات صحابہٴ کرام کی عظمت و فضیلت
پر دیے جو علم وفضل کا شاہکار ہیں۔ آپ کے خطبات مختصر وقت میں
قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل ہوتے، وقت کا اتنا خیال
رکھتے کہ مقررہ وقت کے اندر ہی نماز وخطبات ختم ہوجاتے۔ کتنے ہی
لوگ دور دراز سے سفر کرکے صرف مولانا کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھنے کے
لیے آتے،عرب حضرات بھی جوبمبئی میں تجارت و علاج وغیرہ
کی غرض سے آتے نماز میں شریک ہوتے۔ حضرات شیوخ
الازہر، شاہ فیصل، شیخ محمدبن عبد اللہ السبیل ، شیخ عائض
القرنی اور بھی بہت سے عرب علماء و مشائخ نے مولاناکے پیچھے
جمعہ کی نمازادا کی اور مولانا کے بلند مقام کے معترف ہوے۔
نماز جمعہ میں حضرت مولانا جب خطبہ
دینے کے لیے تشریف لاتے تو مصلیوں سے کھچاکھچ بھری
ہوئی بمبئی کی سب سے بڑی جامع مسجد میں عجیب
روحانی منظر ہوتا ، ایک خطیب اسلامی عظمت و وقار کے ساتھ
کھڑا ہوتا، اذان ہوتی پھر خطبہ شروع ہوجاتا، نماز کے بعد عربی خطبہ کا
عمدہ انداز میں ترجمہ پیش فرماتے اوراگر کوئی نکاح ہوتا تو خطبہٴ
نکاح پڑھتے، پھر ملاقات کرنے والوں کا ایک ہجوم ہوتا جو مولاناسے مصافحہ
کرنے کے لیے قطار میں کھڑا ہوجاتا،مصلیوں کا مرکز عقیدت
مولانا کی ذات گرامی ہوتی، وہ بڑی عقیدت و محبت کے
ساتھ مولانا سے مصافحہ کرتے، مجمع کبھی اتنا زیادہ ہوتا کہ اس عمل میں
اچھا خاصا وقت لگ جاتا؛لیکن مولانا ہر ایک سے بڑی خندہ پیشانی
سے مصافحہ وملاقات کرتے تھے۔
اجازت وخلافت
احسان و تصوف دین کا ایک حصہ
ہے ، مولانا اس درس گاہ کے فیض یافتہ تھے جہاں ایک وقت شیخ
الحدیث سے لے کر دربان تک بھی صاحب نسبت بزرگ ہواکرتے تھے،مولانا کا
اصلاحی تعلق فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی
قُدِّسَ سِرُّہ سے تھا ،حضرت مفتی صاحب نے آپ کو چند دنوں کے لیے
دارالعلوم دیوبند بلا یا اور اجازت وخلافت سے مشرف فرمایا۔
مفتی فاروق صاحب میرٹھی نے حضرت مفتی
صاحب کے خلفاء کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے ، جس میں
حضرت مولانا شوکت صاحب کانام چالیسویں نمبر پر ہے۔ (حیات
محمود:۲/۴۴۹) پھر شیخ الاسلام حضرت مدنی کے خلیفہٴ خاص حضرت مولانا احمد علی آسامی نے بھی آپ کو خلافت و اجازت مرحمت فرمائی؛ لیکن
حضرت مولانا اپنے آپ کو چھپاتے تھے اور ظاہر نہ فرماتے تھے کہ آپ کو اجازت و خلافت
حاصل ہے۔
اکابر علماء سے تعلق
بمبئی کو یہ فخر ہے کہ یہاں
اکابر اہل اللہ مختلف وجوہات کی بنا پر تشریف لاتے رہے ہیں
اوربمبئی کو ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا رہا ہے،
مولانا کو اپنے بزرگوں سے بڑی گہری وابستگی تھی،حضرت
مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری، مولانا عبد الشکور فاروقی،مولانا
قاری محمدطیب ،مولانامفتی محمود حسن گنگوہی،مولانا احمد
علی آسامی،مولانا قاضی اطہر مبارک پوری ، مولانا قاری
صدیق احمد باندوی، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی،
مولاناسید اسعد مدنی، مولانا ابرار الحق ہردوئی، مولاناقاری
امیر حسن ہردوئی رحمہم اللہ اور دیگر بزرگوں سے بڑے اعتماد و
محبت کا تعلق تھا۔آپ اپنی صالحیت و صلاحیت کی وجہ
سے اکابر کے منظورِ نظر رہے ۔ معاصر اکابر سے بھی بڑے اچھے روابط تھے
اور افادہ واستفادہ کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔
جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن سے تعلق
خطہٴ کوکن میں ایک
زمانے میں شرک و بدعات کا دور دورہ تھا، لوگ دین سے اتنے دورہوچکے تھے
کہ بدعات وخرافات کے لیے مرنے مارنے پر تُل جاتے تھے ، اس علاقہ میں
کوئی مدرسہ نہ تھا ، عالم اور حافظ بمشکل چند تھے؛لیکن حق تعالیٰ
کو ایک بارپھر اس خطہ سے دین کی ہوائیں چلانی تھیں
اوراس علاقہ کو دین سے معمور کرنا تھا ، چناں چہ تقدیرِ الٰہی
سے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ
کی اس خطہ میں آمد ہوئی، اس وقت ان کے وعظ و ارشاد کی
روشنی سے ہندوستان کا گوشہ گوشہ منور ہورہا تھا ، عمر کے آخری حصہ میں
حضرت کا کوکن جیسے دوردراز خطہ میں جہاں سڑکیں نہیں
تھی، ا ونچے نیچے ،دشوار گزار پہاڑی راستوں پربیل گاڑیوں
کا سفر کرنا کوئی آسان کام نہ تھا؛ لیکن حق تعالیٰ نے انھیں
اخلاص وللہیت ، دین کی تڑپ اوردین کے لیے قربانی
و سرفروشی کے عظیم جذبہ سے نوازا تھا ،جس کے سامنے پہاڑ بھی رائی
ہوجاتے تھے۔
حضرت مدنی تشریف لائے
اوریہاں کے لوگوں کوسنت و شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی
نصیحت فرمائی اور خاص طور سے قرآن کی تعلیم عام کرنے ا ور
داڑھی رکھنے پرخاص زوردیا ۔ مولانا قاضی اطہر مبارکپوری
بھی اس سفر میں حضرت مدنیکے ساتھ تھے ، وہ رودادِ سفر میں
لکھتے ہیں : ”راقم بھی قافلہ کے ساتھ تھا ، ایسا معلوم ہوتاتھا
کہ علم و روحانیت کی بارات نکل رہی ہے، اس دن جہاز مدرسہ اور
خانقاہ معلوم ہوتا تھا، کوکن اور بمبئی کے متوسلین و معتقدین ہم
سفر تھے ، جہاز کا پورا عملہ ہمہ تن خدمت بنا ہوا تھا، حضرت مولانا نے اس سفر میں
قرآن کی تعلیم عام کرنے اور شکل و صورت شرعی بنانے پر بے حد زور
دیاتھا اور ان کا پورا وعظ اسی موضوع پر ہوا تھا۔“ ( قاضی
اطہر مبارکپوری کے سفر نامے: ۲۲۲)خدا جانے حضرت مدنی کاکیسا اخلاص رہا ہوگا ، کیسی دین کی
تڑپ رہی ہوگی کہ ان کی آمد سے علاقے کے حالات بدل گئے،جہالت و
بدعات کا دور ختم ہوا اور علمِ دین کی روشنی گھر گھر پہنچنے لگی۔
جمعہ کا دن تھا، شریوردھن میں
فجر کی نماز میں امام صاحب نے سورئہ سجدہ کی تلاوت نہیں
فرمائی، حضرت مدنی نے نماز کے بعدسوال
کیاکہ یہاں کتنے عالم ہیں؟ جواب ملا:یہاں کوئی عالم
اور حافظ نہیں ہے، حضرت والا نے اپنے خاص انداز میں فرمایا:”یہاں
مدرسہ کی بنیاد ڈالو، مجھے یہاں سے علم کی خوشبو آرہی
ہے۔ “ ع
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں
تقدیریں
یہ مقبولیت کی گھڑی
تھی ، ایک اللہ والے کے دل سے نکلے ہوئے الفاظ بارگاہِ الٰہی
میں شرفِ قبولیت سے ہمکنار ہوئے اور ایک دینی مدرسہ
کے قیام کی راہیں ہموار ہونے لگیں، حضرت مدنی سے
اصلاحی تعلق رکھنے والے جناب حاجی عبد الرحیم صا حب بروڈ رمضان گزارنے کے لیے دیوبند جاتے تھے ، وہیں
حضرت مدنی کے دولت کدے پراس مدرسہ کے تعلق سے مشورہ ہوا اورپھراس خطہ کی
اولیں اسلامی درس گاہ کی بنیاد رکھی گئی اور
حضرت مدنی کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کا نام” مدرسہ حسینیہ
عربیہ“ رکھا گیا۔
یہ مدرسہ مولانا کے شیخ و مربی
کی یادگار بھی تھااور وطنی نسبت و تعلق کا حامل بھی؛
اس لیے ابتداء ہی سے مولانا کو اس مدرسہ سے تعلق رہااور یہ تعلق
و محبت اتنا بڑھا کہ مولانا کا نام ہی اس کا تعارف بن گیاتھا،بہت سارے
لوگ مدرسہ کا نام لینے کے بجائے اسے مولانا شوکت صاحب کا مدرسہ کہتے تھے۔
مولانا منصبِ امامت کی وجہ سے گرچہ بمبئی میں رہتے تھے؛ لیکن
مدرسہ کے حالات اور تعلیمی سرگرمیوں سے باخبر اور مدرسہ کی
تعمیر و ترقی کے لیے فکر مند ․․․․․․․․․اکابر
اہل اللہ کی توجہات اورمولانا کی فکروں کا نتیجہ ہے کہ آج یہ
مدرسہ اس پورے علاقے میں فقہ شافعی کا مرکزی جامعہ بن چکاہے، جہاں
ناظرہٴ قرآن سے لے کر تخصصات تک تعلیم ہورہی ہے، نیز
دارالافتاء و دارالقضاء بھی فقہ شافعی کے مطابق خدمات انجام دے رہے ہیں،یہاں
کیرالا ،تامل ناڈو ، مہاراشٹر و حیدرآباداوردیگر علاقوں کے طلبہ
فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔
مولانا کوجامعہ حسینیہ، اس کے
اساتذہ وطلبہ اور اس کے درو دیوار سے حد سے زیادہ محبت تھی،جب
تک قویٰ مضبوط تھے ، جامعہ میں بڑی کثرت سے تشریف
لاتے ،دو تین دن قیام فرماتے جب بھی گھر آتے تو جامعہ میں
ضرور تشریف لاتے، صحت کے ایام میں تو ابھی شام میں
گھرپہنچے کہ دوسرے دن صبح جامعہ میں موجود۔ مولاناکا یہ مقولہ
مشہور ہے کہ جب سکون کی تلاش ہوتی ہے تو ہم جامعہ میں آتے ہیں۔جب
جامعہ میں تشریف لاتے تو عید کا سماں ہوتا ، ایسا محسوس
ہوتا کہ اس کے درو دیوار پر رونق و بہار آگئی ہو ۔ہر فرد کے
چہرہ پر خوشی و رونق کے آثار ہوتے، اساتذہ ان کی خدمت میں حاضری
کے لیے بے تاب تو طلبہ پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑتے، ہرایک کی
خواہش ہوتی کہ وہ مولاناکی خدمت سے مستفید ہو۔ اساتذہ سے
دفتر اور مہمان خانے میں ملاقات ہوتی، آپ ان کی بات سنتے اپنی
بات کہتے،مزاحیہ اورایسے بر محل جملے کہتے کہ پوری محفل زعفران
زار ہوجاتی اور طلبہ سے انفرادی و اجتماعی ملاقاتیں ہوتیں۔
سالہا سال سے جامعہ کے اجلاس آپ ہی
کی سرپرستی میں منعقد ہوتے، آپ ان جلسوں میں پابندی
سے تشریف لاتے ، ایسا محسوس ہوتا کہ چہرہ پر انوارِ الٰہی
کا خاص فیضان ہورہا ہو،سب سامعین کی نگاہیں عقیدت و
محبت سے آپ کی طرف لگی رہتیں،جلسہ کے اخیر میںآ پ
مختصر الفاظ میں چند نصیحتیں کرتے جو آپ کی طرف سے ہر ایک
کے لیے پیغام بھی ہوتیں اور بیش قیمت سرمایہٴ
زندگی بھی۔
آپ کی خواہش تھی کہ مدرسہ کا
ہر بچہ علم میں بھی مثالی ہو اور تہذیب وشائستگی کا
پیکربھی ،اس لیے بچوں کی مختلف پیرائے سے تربیت
فرماتے۔ عموماً عصرکے بعد مجلس ہوتی، بیان مختصر اورواقعی
ما قلّ و دلّ کا مصداق ہوتا ،ظرافت آمیز انداز میں طلبہ کی ذہنی
و فکری تربیت فرماتے ، طلبہ سے سوالات پوچھتے ، علم و عمل کے گہرے
نکتے بتاتے ، کامیاب زندگی گزارنے کے آداب و طریقو ں پر روشنی
ڈالتے، سنتوں کی پابندی کی تنبیہ کرتے،صحابہٴ کرام واسلاف و اکابر کے واقعات سناتے، اس کے پس منظر میں نصیحتیں
کرتے ، روتے بھی رُلاتے بھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی موقع موقع سے بتائی ہوئی دعائیں یادکراتے۔
مولانا کی دل آویز شخصیت ، بزرگی و عظمت اور پدرانہ شفقت
و محبت کی وجہ سے یہ باتیں بچوں کے دلوں میں سیدھے
اتر جاتیں ۔مولانا کا حافظہ بھی غضب کا تھا، پیرانہ سالی
کے زمانہ میں بھی ان کے حافظہ میں محفوظ ہوتاتھا کہ پچھلے بیان
میں کیا باتیں ارشاد فرمائیں تھیں۔
مولانا کا ایک بڑ ا نایاب وصف محنتی
اساتذہ و کارکنان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا ،طلبہ کو اساتذہ کی
قدر کرنے اور ان سے خوب استفادہ کرنے پرابھارتے ، اسی طرح خودبچوں کے سامنے
اساتذہ کی تعریف ا ورمختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کرتے
جس سے اساتذہ اور زیادہ محنت و تندہی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے
۔
اوصاف ِحمیدہ
مولاناتواضع وانکساری ،حلم و بردباری،اخلاص
و بے لوثی، زہد واستغناء ،اتباع سنت اورورع و تقویٰ میں
اسلاف کی سچی یادگار تھے ، آپ کو دیکھ کر سلفِ صالحین
کی یاد تازہ ہوجاتی تھی، چہرے پر معصومیت،دراز قد،
باوقار سراپا، گفتگو میں نرمی، برتاوٴ میں شائستگی،
عالمانہ متانت اور خوش طبعی ومحبت کی ادا دلوں کو موہ لیتی
تھیں۔
استغناء
مولاناخود داری و استغنا کاایک
کامل نمونہ تھے ۔عروس البلادبمبئی ، فلک بوس عمارتوں اور تجارتی
منڈیوں کی وجہ سے ہندوستان کا دل مانا جاتا ہے، مولانا جس علاقے میں
رہتے تھے وہ بمبئی کاقلب ہے ، ہر طرف تجارت گاہ اورمال و دولت کی ریل
پیل ہے ، صبح و شام دنیا کمانے کی گویا ایک ہوڑ مچی
ہوئی ہے ، ایسے ماحول میں دنیاوی چمک دمک سے صحیح
سلامت دامن بچا کر نکل جانا ایک کرامت ہی کہا جاسکتا ہے ۔مولانانے
ساری زندگی بمبئی میں گزاری؛لیکن اس کی
رنگینیاں کبھی آپ کو متاثر نہ کرسکیں،مولانااگر دولت کے
متلاشی ہوتے کروڑوں روپیہ ان کے بینک بیلنس کی صورت
میں موجود ہوتا اور فلیٹ و جائیداد کی تفصیلات
سنبھالنا مشکل؛ لیکن مولاناکی بے نفسی ، بے ریائی
اور مال و دولت سے بے اعتنائی اس حد تک تھی کہ وہاں اپنا ایک
ذاتی گھر بھی نہ بنایا ، مسجد ہی کے مکان میں رہے؛
حالانکہ آپ کے چاہنے والوں اور آپ پر اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں کی کچھ
کمی نہ تھی ،لوگ پیش کش کرتے رہے ؛ لیکن مولانا نے کبھی
قبول نہ فرمایا۔
خشیت
خوف و خشیت میں مولانا کا وصف
نرالا تھا ، ابھی مولانا بذلہ سنجی و خوش طبعی کی کیفیت
میں ہیں توابھی پل بھرمیں خوف و خشیت کا جلوہ
ہوجاتا اور رقت طاری ہوجاتی۔جامعہ میں جب خطاب فرماتے تو
بات بات پر آنکھیں چھلک پڑتیں، جلسہ میں قرآن کی تلاوت
ہوتی اور مولانا کی آنکھیں آنسوبرسانے لگتیں ۔اخیر
زمانے میں خصوصیت کے ساتھ دیکھا گیا کہ قرآن کریم کی
تلاوت ہورہی ہے اور مولانا کی آنکھیں چھلک رہی ہیں
اور دل کی کیفیت آنکھوں کے ذریعہ باہر آرہی ہے،مقرر
کا بیان جاری ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہٴ
کرام اور اسلاف کے واقعات بیان ہورہے ہیں اور آپ کی
آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ مولاناکبھی خود کسی طالب علم سے
فرمائش کرکے قرآن سنتے ،ابھی گذشتہ سال مولانا کی طبیعت بہت
خراب تھی؛ لیکن جب سنا کہ جامعہ میں تجوید و قراء ات کا
جلسہ ہے تو کہا کہ مجھے ضرور جانا ہے ، تشریف لائے اور جامعہ کے مہمان خانہ
میں چند لوگوں کی موجود گی میں جامعہ کے ایک فاضل
سے قرآن پڑھنے کی فرمائش کی ، تلاوت شروع ہوئی اور ادھرمولانا
پر گریہ طاری ہوا اورآپ دیر تک روتے رہے۔
(۲۶)مقبولیت و محبوبیت
علم و عمل کی جامعیت ، صلاح و
تقویٰ کی وجہ سے حق تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ مقبولیت
سے نوازا تھا اور اس دیار میں مرجعِ خلائق کی حیثیت
رکھتے تھے، ہر طبقہ اورہر مسلک والے بلکہ غیر مسلم بھی آپ کا ادب
واحترام کرتے تھے ، دنیا دار طبقہ بھی آپ کے قدموں میں گرتا
تھا، لوگ آپ کے پاس اپنے معاشرتی، تجارتی مسائل حل کرنے کے لیے
لاتے اور مولانا کا فیصلہ ان کے لیے حرفِ آخر ہوتا۔ اکابر
وعلماء بھی مولانا سے بڑی محبت رکھتے تھے اور مولانا کی خدمت میں
حاضر ہوتے رہتے تھے،حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت
برکاتہم لکھتے ہیں: بمبئی کی سب سے بڑی جامع مسجد کے امام
و خطیب حضرت مولانا شوکت صاحب مدظلہم اس وقت بمبئی میں سب سے زیادہ
معمر بزرگ ہیں جن پر علاقے کے تمام مسلمان اعتماد کرتے ہیں ۔ آج
کل وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوچکے ہیں ، ہمارا خیال تھاکہ عصر کی
نماز ان کی مسجد میں پڑھ کر ان کی زیارت اور عیادت
کی سعادت حاصل کریں گے؛لیکن ہجوم کی وجہ سے ہمیں
نکلنے میں دیر ہوئی،اور جماعت ہوٹل ہی میں کرنی
پڑی۔نماز کے فوراً بعد معلوم ہوا کہ حضرت مولانا ہمارے آنے کی
خبر سن کر بذات خود ہوٹل کی نچلی منزل میں تشریف لاچکے ہیں․․․․․۔(
سفر درسفر:۳۰۰)
یہ حضرت مولانا کی برکت تھی
کہ اس دشوار گذار کوہ و دمن میں بزرگانِ دین اور علماء و اکابر کی
آمد ہوتی رہتی تھی ، پچھلے دو سالوں میں حضرت مولانامفتی
ابو القاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا یوسف متالا
صاحب، مولانا محمدابراہیم پانڈور، مولانامفتی احمد خانپوری،
مولانا عبدالرزاق بھوپال ،مولانا محمدسلمان مظاہرعلوم سہارنپور، مولانا عبد العلیم
فاروقی، مولانا محمود مدنی، مولانا بدر الدین اجمل ، مولانا
احمد بزرگ مہتمم جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل دامت
برکاتہم العالیہ اور نہ جانے کتنے علماء و اکابر حضرت مولاناکی عیادت
و ملاقات کے لیے ”میندری“ تشریف لاتے رہے، اس بہانے ان میں
سے اکثر کی جامعہ حسینیہ میں بھی آمدہوتی ،ان
حضرات کی ملاقات اور ان کی زیارت ہم سب کے لیے نعمتِ غیر
مترقبہ تھی جس سے دیدہ و دل شاداب ہوتے تھے۔
مولانا کی وفات امت کے لیے ایک
بڑا سانحہ ہے ، اللہ تعالیٰ مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے ۔اللّٰھم
اغفرلہ وارحمہ وأدخلہ الجنة․آمین
$ $ $
-------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3،
جلد:100 ، جمادی الاولی1437 ہجری مطابق مارچ 2016ء